موسمیاتی تبدیلی کے ہمارے جسم پر 10 منفی اثرات ماحولیاتی تبدیلی انسانی صحت کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک کے طور پر جانی جاتی ہے، یہاں ت...
موسمیاتی تبدیلی کے ہمارے جسم پر 10 منفی اثرات
ماحولیاتی تبدیلی انسانی صحت کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک کے طور پر جانی جاتی ہے، یہاں تک کہ اسے کچھ وائرسز سے بھی زیادہ خطرناک مانا جاتا ہے۔
محققین نے انسانی جسم پر ایسے 10 اثرات کی نشاندہی کی ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی ان بیماریوں میں سے کچھ معلوم ہوں اور باقی آپ کے لیے غیرمتوقع ہوں۔
تناؤ
جیسے جیسے اگلے 20 سالوں میں زمین کا درجہ حرارت بڑھے گا، عالمی حدت کے مزید ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ہم گرمی اور جنگل کی آگ جیسی مہلک لہروں کو زیادہ سے زیادہ دیکھیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق انتہائی درجہ حرارت میں دل کی ناکامی کی وجہ سے سالانہ پچاس لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام خبریں تناؤ اور اضطراب کو بڑھاتی ہیں۔
نیند
کوپن ہیگن یونیورسٹی کے کلنٹن مائنر کی سربراہی میں 2022 کی نیند کی خرابی کی ایک تحقیق میں پتا چلا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے پوری دنیا میں نیند کے انداز کو نمایاں طور پر بدل دیا ہے۔ 68 ممالک میں 47,000 لوگوں سے نیند کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے ٹریکنگ رِسٹ بینڈ کا استعمال کرتے ہوئے، مائنر نے کہا، ’اوسط سے زیادہ گرم راتوں میں لوگ کم سوتے ہیں جو بالآخر صحت کے منفی نتائج کا باعث بنتی ہے۔‘
تاہم، درجہ حرارت کے بڑھنے سے سبھی یکساں طور پر متاثر نہیں ہوتے ہیں۔ ’اگرچہ گرمی کی وجہ سے تمام لوگ نیند کی خرابی کا شکار ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا کچھ گروپس پر زیادہ اثر پڑتا ہے، جیسے کہ بوڑھے افراد، خواتین اور کم آمدنی والے ممالک کے رہائشی۔‘
سانس کے مسائل
اوزون ایک گیس ہے جو قدرتی طور پر زمین کے اوپر ماحول میں پائی جاتی ہے جو سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ہماری صحت کے لیے خطرناک زمینی اوزون کی پیداوار اس وقت ہوتی ہے جب کاروں یا کیمیائی پودوں سے خارج ہونے والے آلودگی دھوپ میں ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔
اوزون میں اضافہ اور معلق ذرات پھیپھڑوں کے کام میں کمی کا باعث بنتے ہیں، خاص طور پر اگر لوگ بچپن سے ہی فضائی آلودگی کا شکار ہوں۔ فضائی آلودگی کے بارے میں سب سے عام خدشات دمہ، rhinosinusitis، دائمی رکاوٹ، پلمونری بیماری اور سانس کی نالی کے انفیکشن ہیں۔
غیر معمولی گرم دنوں میں، جو ہم آنے والے سالوں میں زیادہ دیکھیں گے، زمین کی اوزون کی سطح غیرصحت بخش سطح تک پہنچ سکتی ہے اور اوزون پر مشتمل ہوا میں سانس لینے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کینیڈا میں ایک خاتون دنیا کی پہلی مریض بن گئی جسے گرمی کی لہر کی وجہ سے سانس کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
گردوں کو نقصان
گرمی میں اضافے سے پانی کی کمی گردوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ گردے پیشاب کی شکل میں خون سے فضلہ کو نکالنے میں مدد کے لیے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ جب پانی کی کمی کی وجہ سے زیادہ پانی ضائع ہو جاتا ہے تو پیشاب میں معدنیات اور فضلہ زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ کرسٹل کی تشکیل کا باعث بن سکتا ہے جو گردے کی پتھری میں بدل جاتا ہے۔ خطرہ خاص طور پر بزرگوں کے لیے زیادہ ہے، جن کے گردے فیل ہو سکتے ہیں۔
الرجی
1950 سے 2005 تک چونکہ نو فیصد سے 31 فیصد تک زیادہ فوٹو سنتھیسز کی وجہ سے پولن کی مقدار میں اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ الرجی کی علامات جیسے کہ چھینک، کھانسی، آنکھوں میں خارش، سر درد اور کان میں درد کو مزید بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔
دورانِ خون کو پہنچنے والا نقصان
جب ہوا کی آلودگی پھیپھڑوں اور دل کے ذریعے خون کے دھارے میں داخل ہوتی ہے تو خون کی نالیوں کے تنگ اور سخت ہونے سے دل کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لندن میں 2018 میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے معلق ذرات خون کے دھارے میں داخل ہو جاتے ہیں، جس سے خون زیادہ چپچپا ہو جاتا ہے اور دل کو جسم میں پمپ کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس سے دل کی خرابی ہوتی ہے۔
بانجھ پن
فضائی آلودگی کے کم معلوم اثرات میں سے یہ ایک ہے جس کا ذکر ڈاکٹر گیرتھ نائ نے کیا ہے، جو کہ برطانیہ کی چیسٹر یونیورسٹی میں اناٹمی اور فزیالوجی کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’چین میں 18,000 جوڑوں کا جائزہ لینے والے ایک مضمون سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ نسبتاً زیادہ ذرات کی سطح کے ساتھ رہتے تھے ان میں بانجھ ہونے کا امکان 20 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔‘
یہ دیکھتے ہوئے کہ 30 فیصد جوڑوں کو حاملہ ہونے میں دشواری ہوتی ہے جس کی کوئی خاص وجہ نہیں پائی جاتی ہے لہذا یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ فضائی آلودگی کو ممکنہ وجہ کے طور پر دیکھا جائے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ماحولیاتی اضطراب کی کچھ شکلیں بڑھ رہی ہیں۔ یہ خرابی خاص طور پر ان نوجوانوں میں پائی جاتی ہے جو مستقبل کی دنیا سے خوفزدہ ہیں۔ 2021 میں شائع ہونے والی ایک عالمی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ دنیا کے 10,000 نوجوانوں میں سے 60 فیصد موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا ہیں اور 56 فیصد نے کہا کہ ان کے خیال میں انسانیت برباد ہے۔
جسم میں پائے جانے والے مائیکرو پلاسٹک
پلاسٹک نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں سے ہماری صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اس کے بےدریغ استعمال سے انسانی جسم پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مائیکرو پلاسٹک کے فضلے کے بہت چھوٹے ٹکڑے ہیں جو ماحول میں پائے جاتے ہیں جو انسانی جسم میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔
سائنس دانوں میں یہ خدشہ ہے کہ یہ نینو پارٹیکلز خون کے ذریعے ہمارے تمام اعضا تک پہنچ جائیں گے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نوزائیدہ بچوں، جو ممکنہ طور پر پلاسٹک کے کھلونے اور قالین کے مائیکرو پلاسٹک نگل چکے ہوتے ہیں، کے پاخانے میں بڑوں کے مقابلے میں 15 گنا زیادہ مائیکرو پلاسٹک ہوتے ہیں۔ انسانی خون میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی کی وجہ سے انسانی صحت پر ان کے اثرات پر وسیع تحقیق شروع ہوچکی ہے۔