Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

اہم خبریں

latest

مارگلہ کے پہاڑ، جن کے نام میں خونی تاریخ چھپی ہے

  مارگلہ کے پہاڑ، جن کے نام میں خونی تاریخ چھپی ہے ایک روایت یہ بھی ہے کہ مغرب سے جو حملہ آور اس علاقے میں آتے، انہیں مارگلہ کی پہاڑیاں عبور...

 

مارگلہ کے پہاڑ، جن کے نام میں خونی تاریخ چھپی ہے


ایک روایت یہ بھی ہے کہ مغرب سے جو حملہ آور اس علاقے میں آتے، انہیں مارگلہ کی پہاڑیاں عبور کرتے ہوئے اپنے ہزاروں فوجیوں کو قربان کرنا پڑتا تھا۔

تقریباً 43 ہزار ایکڑ پر مشتمل مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی تشکیل 1980 میں ہوئی۔ مارگلہ کو ہمالیہ کے پاؤں بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہیں سے اس عظیم سلسلۂ ہائے کوہ کا آغاز ہوتا ہے۔

کہتے ہیں کہ کروڑوں سال پہلے جب یہ پہاڑ موجود نہیں تھے اور برصغیر انٹارکٹیکا کے ساحل کے ساتھ تیرتا ہوا ایک میدان تھا۔ براعظم ٹیکٹانک پلیٹس کی وجہ سے مسلسل حرکت میں رہتے ہیں، چنانچہ 22 کروڑ سال پہلے یکایک ان پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے برصغیر کا ٹکڑا چند انچ فی سال کی رفتار سے شمال کی جانب سرکنا شروع ہوا۔

یہ چھ ہزار کلومیٹر سرکتا ہوا چار کروڑ سے پانچ کروڑ سال پہلے ایشیا سے آ ٹکرایا۔ اسی خوفناک ٹکر سے ہمالیہ کے پہاڑ بنے ہیں، بلکہ اس ٹکر کے اثرات ابھی تک موجود ہیں اور ہمالیہ کی چوٹیوں کی اونچائی میں ہر سال معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔

یہاں پر لائم سٹون میں سمندری حیات کی باقیات سے ان چٹانوں کی قدامت کا اندازہ چار کروڑ سال لگایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے یہ پہاڑیاں سمندر کے نیچے تھیں۔ آج ہمالیہ کی پہاڑیاں 2900 کلومیٹر پر چار ممالک، پاکستان، انڈیا، چین اور نیپال تک پھیلی ہوئی ہیں جن میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بھی ہیں۔

اسلام آباد سے اگر آپ مارگلہ ہلز کو نکال دیں تو شاید اس شہر کی خوبصورتی بےمعنی ہو کر رہ جائے۔ صدر ایوب کے دور میں پاکستان کے نئے دارالحکومت کا انتخاب بھی مارگلہ ہلز کے خوبصورت نظاروں کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ لیکن دراصل ان پہاڑیوں کی وجہ تسمیہ کے پیچھے ہولناکی ایک داستان ہے۔

ٹیکسلا جس کی شہرت کبھی چہاردانگ عالم میں تھی اور گندھارا کے علم و فن کی مہک سارے جہان میں تھی مگر پھر اچانک شمال سے ایک آندھی سفید ہنوں کی شکل میں آئی جس نے سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ عالیشان شہروں کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ ان کے شر سے نہ کوئی شہر بچا نہ کوئی دیہات، بربادی اس قدر تھی کہ بچ جانے والے لوگ کہیں دور گم ہو گئے۔ بربادی اس قدر تھی کہ نہ صرف ان شہروں کو دوبارہ بسایا نہ جا سکا بلکہ اس تہذیب کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔

آج تاریخ کی کتابوں میں باقی بچ جانے والے چند حوالے ہی ہیں جو ہمیں اس عظیم الشان تہذیب کی جھلک دکھاتے ہیں یا پھر اس تہذیب کی عجائب گھروں میں موجود وہ نشانیاں ہیں جن سے ہم اپنی اپنی رائے کشید کرتے ہیں۔

شاید لوگوں کے لیے یہ بات باعث حیرت ہو کہ مارگلہ کی نسبت انہی سفید ہنوں کے ایک سردار راجہ مہر گل عرف راجہ گولا سے بیان کی جاتی ہے، جو کہ سفید ہنوں کے سردار تورمان کا بیٹا تھا۔ راجہ مہر گل نے جب ٹیکسلا کو تاراج کر کے وہاں کوئی انسان زندہ نہ چھوڑا تو اپنی فتح کی خوشی میں ان پہاڑیوں پر ایک جشن برپا کیا اور سورج دیوتا کے حضور ہزاروں انسانی کی قربانی دی۔ بعد ازاں اس نے یہیں اپنا پایہ تخت بنایا، جسے ’مہر گولے والی‘ کہا جاتا تھا جو بنتے بگڑتے مارگلہ بن گیا۔

چینی سیاح ’سنگ یان‘ نے بھی مہر گولا کی راج دہانی کا نام مہر گولے والی لکھا ہے جبکہ دوسرے چینی سیاح ہیون تسانگ نے مہر گولا کے تخت کا نام ’سگولہ‘ لکھا ہے۔

ایک اور روایت جو راج ترنگنی کے مصنف پنڈت کلہان سے منسوب ہے، اس کے مطابق چاند کی سب سے پہلے پوجا انہی پہاڑیوں پر کی گئی تھی اور یہاں ایک مندر تھا جس کو ’ماری کلا‘ کہا جاتا تھا۔ ماری کے معنی عبادت گاہ اور کلا کے معنی چاند کے ہیں۔ یہی ماری کلا بعد میں مارگلہ بن گیا۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ مغرب سے جو حملہ آور آتے، انہیں یہ پہاڑیاں عبور کرتے ہوئے اپنے ہزاروں فوجیوں کو قربان کرنا پڑتا تھا، کیونکہ یہاں مقامی قبائل گھات لگا کر ان پر شب خون مارتے تھے اس لیے انہیں اسے مارگلہ یعنی ایسی جگہ جہاں گلے کٹ جاتے ہیں کا نام دیا۔

ایک اور روایت کے مطابق یہاں زہریلے سانپوں کی بہتات تھی جس کی وجہ سے یہاں متعدد جانیں چلی جاتی تھیں اسی نسبت سے اسے مارگلہ کہا جانے لگا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس جنگل میں ہاتھیوں اور گینڈوں کی کثرت تھی سنسکرت میں ہاتھیوں کو گج اور پہاڑی کو میر کہا جاتا ہے اسی طرح ’میر گجہ‘ سے یہ بنتے بگڑتے مارگلہ بن گیا۔ مقامی زبان پوٹھوہاری میں گلہ درہ نما راستے کو کہتے ہیں یہ بھی ایک نسبت ہو سکتی ہے۔

مغل بادشاہ جہانگیراپنی کتاب تزک جہانگیری میں لکھتے ہیں، ’میں پیر کو سرائے خربوزہ میں داخل ہوا جو خربوزہ کے نام سے موسوم ہے اور یہاں گکھڑوں نے راہداری وصول کرنے کے لیے یہ سرائے تعمیر کروائی تھی۔ یہ سڑک مارگلہ کے درے سے نکلتی ہے۔ مار کا ہندی میں مطلب راہزنی کے ہیں جبکہ گلہ کا مطلب کاروان کے ہیں۔ اس طرح مارگلہ کے معنی ہیں جہاں قافلوں کو لوٹا جاتا ہے۔ یہ درہ گکھڑوں کے علاقے کی سرحد ہے جو ہمیشہ آپس میں دست و گریبان رہتے ہیں۔‘

’تاریخِ حسن ابدال‘ کے مصنف منظور الحق صدیقی کے بقول مارگلہ کے ارد گرد 11 تہذیبوں کے آثار دریافت ہو چکے ہیں جن میں سے بعض تہذیبوں نے پچھلی کو مٹا کر جگہ بنائی جبکہ بعض تہذیبوں نے وقت کے ساتھ پرورش پائی۔ ٹیکسلا میں سات تہذیبوں جن میں ہخامنشی، یونانی، موریا، یونانی باختری، شاکا، پہلوی اور کشان، جبکہ سرائے کھولا میں چار مختلف تہذیبوں کی آثار ملے ہیں۔

یہ تمام تہذیبیں مارگلہ کے دوسری طرف آباد تھیں اور پہاڑیاں ایک طرح سے ان کا قدرتی حصار تھیں۔ مارگلہ میں شاہ اللہ دتہ نامی گاؤں جہاں قدیم غاریں موجود ہیں ان سے ایک راستہ ٹیکسلا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ قدیم راستہ یہی تھا اور یہاں پہاڑی پر ایک واچ ٹاور کی باقیات بھی موجود ہیں۔ جو پتھروں کی بنی ہوئی ایک چوکور عمارت ہے جہاں سے ملنے والے تیروں کے بھالے اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ کوئی سٹوپا نہیں تھا بلکہ اسے حفاظتی نقطۂ نظر سے بنایا گیا تھا جہاں رات کو دیے جلائے جاتے تھے تاکہ مسافروں کو راستہ تلاش کرنے میں آسانی رہے اور اگر کوئی خطرہ ہو تو یہاں تعینات سپاہی ٹیکسلا میں جا کر خبر کر سکیں اور فوج کو مقابلے کے لیے تیار کر سکیں۔

یہ واچ ٹاور انتہائی اہم جگہ پر واقع ہے اس کے ایک طرف دور تک ٹیکسلا کی وادی نظر آتی اور دوسری جانب روات تک نظر جاتی ہے۔

اسی واچ ٹاور کے عقب میں برصغیر میں مسلمانوں کی اوّلین مسجد کے آثار بھی ہیں۔ جبکہ شاہ اللہ دتہ سے جو راستہ خان پور کو جاتا ہے اس میں شیر شاہ سوری دور کی ایک باؤلی بھی ہے۔ ہندوستان کی اولین تہذیبیں مہر گڑھ، موہنجو دڑو اور ہڑپا کے بعد جب گندھارا تک پہنچیں تو مارگلہ کی ان پہاڑیوں کو خاص اہمیت تھی۔

انہی کے دامن میں جو تہذیب پروان چڑھی وہ ٹیکسلا سے سوات اور پشاور تک پھیلی ہوئی تھی۔ ہزاروں سال پہلے مارگلہ کی دوسری جانب ٹیکسلا کی طرف موجود تہذیب مرکز نگاہ تھی۔ آج مارگلہ کی اس جانب پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد واقع ہے۔ جہاں مارگلہ کے دامن میں پاکستان کی پارلیمنٹ ہے۔ ایوان صدر ہے، وزیراعظم ہاؤس ہے۔ پاکستان کی تینوں افواج کے ہیڈ کوارٹرز ہیں۔ کبھی مارگلہ کے دامن میں کوٹلیہ چانکیہ بیٹھتا تھا، چندر گپت موریہ تھا، اشوک اعظم تھا۔ آج مارگلہ کی اس جانب تاریخ کسی چانکیہ، کسی چندر گپت اور اشوک جیسے عظیم حکمران کے انتظار میں ہے۔ پہاڑ وہی ہیں ان کے نیچے کے منظر بدل گئے ہیں۔