سال 2022 وہ برس تھا جب عالمی معیشت کی کووڈ 19 جیسی عالمی وبا سے ہونے والی تباہی سے بحالی کی امید تھی، لیکن پھر روس نے 24 فروری کو یوکرین پ...
سال 2022 وہ برس تھا جب عالمی معیشت کی کووڈ 19 جیسی عالمی وبا سے ہونے والی تباہی سے بحالی کی امید تھی، لیکن پھر روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کر دیا اور اس طرح معیشت کو غیر یقینی کے دلدل میں دھکیل دیا گیا۔
یوکرین میں جنگ اور اس کے نتیجے میں روس کے خلاف مغربی پابندیوں نے جیو پولیٹیکل کشیدگی کو جنم دیا، جس سے توانائی اور خوراک کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں اور سپلائی چین میں خلل پڑا ہے۔ اس سے عالمی معیشت کی بحالی کے کاموں میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔
مہنگائی نے جرمنوں کے چھٹیوں کے منصوبے بدل دیے
افراط زر کی شرحیں کئی برس کی بلندترین سطح پر پہنچ گئیں جس سے مرکزی بینک سود کی شرحیں بڑھانے پر مجبور ہوئے۔ اس سے قرضوں کا حصول مزید مشکل ہو گیا اور کرنسی کے بہاو میں رخنہ پڑنے کے ساتھ ہی پہلے سے ہی سست روی کی شکار معیشت کے لیے 2023 میں کساد بازاری کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔
پاکستانی معیشت میں زیتون کی کاشت کی اہمیت
لیکن کساد بازاری ان متعدد معاشی مشکلات میں سے صرف ایک ہے، جن سے اگلے برس ہمیں دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔2023 میں عالمی معیشت کو درپیش سب سے بڑے چیلنجز پر ایک نظر:
کیا بھارت میں مہنگائی کے خلاف پک رہا لاوا پھٹ پڑے گا؟
کساد بازاری کا خطرہ
توقع ہے کہ رواں صدی میں 2023 سن 2009 کے بعد عالمی معاشی نمو کے لیے تیسرا بدترین سال ثابت ہو سکتا ہے۔ سن 2009 میں عالمی مالیاتی بحران نے ایک بڑی کساد بازاری کو جنم دیا تھا اور پھر 2020 میں کووڈ 19 کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے عالمی معیشت ایک طرح سے بالکل ٹھپ ہو کر رہ گئی تھی۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب مرکزی بینک صارفین کی اشیا اور خدمات کی مانگ کو کم کرنے کے لیے شرح سود میں مسلسل اضافہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ آنے والے سال میں امریکہ، یورو زون اور برطانیہ سمیت دنیا کی بڑی معیشتیں بھی کساد بازاری میں پھسل جائیں گے۔
یورو زون روسی فوسل ایندھن پر انحصار کم کرتا نظر آ رہا ہے اور فی الوقت توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ اس صورتحال میں امکان ہے کہ برطانیہ اپنے دیگر ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ گہری کساد بازاری کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
جرمنی اور اٹلی میں کساد بازاری کا خطرہ، آئی ایم ایف
انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کے تجزیہ کاروں نے اپنی ایک تحقیقی نوٹ میں لکھا، ''عالمی جی ڈی پی کو ہونے والے نقصان کی شدت کا انحصار بنیادی طور پر یوکرین کی جنگ کی رفتار پر ہو گا۔ ترقی یافتہ معیشتیں سکڑ جائیں گی اور ڈالر کے مضبوط ہونے سے برآمدات کو نقصان پہنچے گا۔ اس سے برآمدات پر مبنی ایشیائی معیشتوں کے لیے بھی پریشانی پیدا ہو گی۔
تاہم، تسلی کی بات یہ ہے کہ یہ کساد بازاری قلیل المدت ہو گی اور اتنی شدید نہیں ہو گی جتنا کہ ابتدائی طور پر خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ البتہ اس کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں معمولی اضافہ ضرور ہوگا۔
یہ کساد بازاری قلیل المدت ہو گی اور اتنی شدید نہیں ہو گی جتنا کہ ابتدائی طور پر خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا، البتہ اس کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں معمولی اضافہ ضرور ہوگاتصویر: DW
ہرین اقتصادیات نے دسمبر میں کہا کہ ''چونکہ اب مہنگائی پوری دنیا میں کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اس لیے مرکزی بینکوں کو چاہیے کہ وہ جلد ہی اپنے قدم بریک سے ہٹا لیں، تاکہ اگلے سال (2023) کے اواخر سے بحالی کا عمل شروع ہو سکے۔''
سرکش مہنگائی
امکان ہے کہ مانگ میں کمی، توانائی کی قیمتوں میں گراوٹ، رسد میں نرمی اور شپنگ کے اخراجات میں کمی کی وجہ سے 2023 میں عام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ممکنہ طور پر معتدل رہے گا۔ تاہم، پھر بھی افراط زر کی شرحیں مرکزی بینک کے ہدف کی سطح سے اوپر ہی رہیں گی، جس سے شرح سود میں مزید اضافہ ہو گا، دوسرے لفظوں میں کہیں، تومعیشت کے لیے یہ مزید تکلیف دہ بات ہو گی۔
افراط زر کی شرح امریکہ کے مقابلے میں یورو زون میں آہستہ آہستہ نیچے آنے کی زیادہ امید ہے۔ یورو زون کے اقتصادی انجن جرمنی میں گیس اور بجلی کی قیمتوں کی حد متعین کرنے جیسے اقدامات کی بدولت افراط زر میں کمی متوقع ہے۔ لیکن بنیادی افراط زر، جس کی وجہ سے خوراک اور توانائی کیقیمتیں غیر مستحکم رہتی ہیں، سرکشی کی حد تک برقرار رہ سکتی ہے۔
کیپیٹل اکنامکس میں یورو زون کے ماہر معاشیات اینڈریو کیننگھم کا کہنا ہے کہ (یورو زون) کی معیشت، اور خاص طور پر لیبر مارکیٹ کی لچک بتاتی ہے کہ افراط زر ہماری توقع سے زیادہ رہ سکتا ہے۔'' اینڈریو کیننگھم نے کہا کہ بنیادی افراط زر آہستہ آہستہ زیادہ گرے گا۔ تاہم سروسز
کے شعبے میں اجرت میں اضافہ مہنگائی کو بلند بھی رکھے گا۔
اینڈریو کیننگھم کا کہنا ہے، ''اس پیشن گوئی کے کئی خطرات ہیں۔ جو 'معلوم اور نامعلوم' میں شامل ہیں، آخر توانائی کی منڈیوں پر کیا اثر ہو گا، جو یوکرین کی جنگ اور موسم پر منحصر ہے، اور پھر یہ کہ جرمن صنعت کار توانائی کی بلند قیمتوں سے نمٹتے کیسے ہیں؟''
چین میں کووڈ 19 کی افراتفری
سن 2023 کے آغاز کے چند ہفتوں پہلے ہی، چین نے کورونا سے متعلق اپنی متنازعہ صفر پالیسی کو ترک کرنے کا اعلان کر دیا، جبکہ ملک میں تیزی سے پھیلنے والی اس وبا نے ملک کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر تشویشناک اضافہ کر دیا ہے۔
دوسرے ممالک کے تجربے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انفیکشن کے اس تازہ لہر سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت میں قلیل مدتی خلل آنے کی توقع ہے۔ اس سے عالمی سپلائی چین کی نازک بحالی کو بھی دھچکا لگا سکتا ہے۔ اس سے کورونا وائرس کی نئی لہر کا خدشہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں پھیلنے کا خطرہ بھی ہے۔
گرچہ قریب المدت امکانات تاریک نظر آتے ہیں، تاہم تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ 2023 کے اختتام تک چینی معیشت میں قدرے روشن بحالی کا امکان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیجنگ نے کووڈ 19 سے متعلق اپنی صفر برداشت پالیسی کو ختم کرنے کے ساتھ ہی اس نے ملک کے بیمار پراپرٹی شعبے کی بحالی کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے، جو کہ چین کی معیشت کے تقریباً ایک چوتھائی حصے پر مبنی ہے۔
ڈوئچے بینک کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر کرسچن نولٹنگ نے صارفین کے نام اپنے ایک نوٹ میں لکھا، ''علاقائی سطح پر دوبارہ کھلنے کے ساتھ ہی چینی بحالی کا مطلب یہ ہے کہ ایشیا کا 2023 اچھا ہو سکتا ہے۔'' ان کے مطابق یہ بحالی، ''ہمسایہ اور بہت سے اجناس برآمد کرنے والے ممالک (جیسے لاطینی امریکہ کے ممالک کی) کی معیشتوں کو مستحکم کر سکتی ہے، کیونکہ چین عام اشیا کا سب سے بڑا صارف بھی ہے۔''
توانائی کا بحران
یورپ میں توانائی کی ناقص صورتحال خاص طور پر 2023 میں حکومتوں کے لیے درد سر کا باعث ہو گی۔ رواں برس معمول سے کم سخت موسم
اور صارفین کی جانب سے اپنی توانائی کے استعمال میں کمی کی وجہ سے یورپ اس موسم سرما میں توانائی کے مکمل بحران سے بچنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
گھر گرم رکھنے کے لیے توانائی کی کم مانگ کا مطلب یہ ہے کہ خطے کی ذخیرہ کرنے کی سہولیات، جو کہ پچھلے سال بھری ہوئی تھیں، اس موسم سرما کے آخر تک اچھی طرح سے بھری رہ سکتی ہیں۔ اس کی وجہ سے اگلے موسم بہار میں بھی گیس کی قیمتیں مستحکم رہنے کا امکان ہے، جس سے افراط زر کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
تاہم، اگلی سردیوں سے پہلے کی صورتحال مشکل بھی ہو سکتی ہے۔ گزشتہ سال روسی توانائی کے متبادل تلاش کرنے اور صارفین کو محفوظ رکھنے کے لیے سینکڑوں ارب یورو خرچ کرنے کے بعد، یورپ کو اپنے ذخائر کو مکمل طور پر بھرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ سکتی ہے۔ خاص طور پر ایسی صورت حال میں جب چین پوری طرح سے قدرتی مائع گیس کے لیے دوبارہ کھلنے کی کوشش میں ہے اور روایتی جاپان اور کوریا جیسے ایشیائی خریدار بھی بازار میں ہیں۔
نولٹنگ کا کہنا ہے کہ سن 2023/2024 کے موسم سرما میں گیس کی ممکنہ قلت کے ساتھ توانائی خطے کے لیے اب بھی خطرے کا اہم عنصر بنی ہوئی ہے۔''
جیو پولیٹکل کشیدگی اور ٹیکنالوجی کی جنگ
گزرے ہوئے سال کی طرح ہی عسکری اور سیاسی تناؤ بھی معیشت کے لیے سب سے بڑے خطرات کے روپ میں بدستور برقرار رہیں گے۔ ایک طرف یوکرین میں روس کی جنگ کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آ رہا ہے اور دوسری طرف تائیوان پر امریکہ اور چین کے درمیان تنازعات کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ شمالی کوریا کی جانب سے ریکارڈ میزائل تجربے کی وجہ سے جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور امکان ہے کہ یہ صورتحال سرمایہ کاروں کو اپنی انگلیوں پر نچائے رکھے گی۔
نولٹنگ کا کہنا ہے، ''یوکرین پر روسی حملے کو ختم کرنے کا حل ابھی تک نظر نہیں آرہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنگ کی وجہ سے نقل و حرکت، فوسل انرجی، اجناس کی عالمی فراہمی اور خوراک جیسے مسائل پر جو اثر پڑا ہے، اس کا کوئی کا حل نہیں مل سکا ہے، جبکہ اس تنازعے کے اثرات دیگر علاقوں تک پھیلنے کا امکان ہے۔''
امریکہ اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کی بالادستی کی جنگ بھی سن 2023 میں مزید شدید ہو سکتی ہے۔ گزشتہ برس واشنگٹن نے چین کو جدید ترین امریکی سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی کی منتقلی پر پابندی لگا دی تھی۔
نولٹنگ کا کہنا ہے، ''ایک تجارتی تنازعہ اب انتہائی اہم شعبوں، جیسے کہ فائیو جی، مصنوعی ذہانت اور چپس جیسے شعبوں میں طویل مدتی معیارات قائم کرنے کی کوشش میں بدل چکا ہے۔ اس میں کامیابی طویل مدت کے لیے ملک کی طاقت کے لیے ضمانت کی بنیاد ہو سکتی ہے۔ اس لیے دونوں فریق آسانی سے مقابلہ چھوڑنے والے نہیں ہیں۔''